وہ چاند سی پیاری لڑکی تھی وہ چاند کے حسن پہ مرتی تھی نا جانے کس کتاب میں پڑھا تھا کہ چاند پہ پریاں رھتی ہیں تاروں سے باتیں کرتی ہیں ہستی کھیلتی رہتی ہیں
اب ضد یہ مجھ سے کرتی ہے کہ چاند تک سیڑھی چاہئے پریوں سے باتیں کرنی ہیں تاروں کی باتیں سننی ہیں
میں چاند کو توڑ کے لے آیا دو ٹکڑے کر کے دکھلائے کہاں چاند پہ پریاں رہتی ہیں کب تارے باتیں کرتے ہیں یہ سب ایسے فسانے ہیں یہ قصے بہت پرانے ہیں پریاں زمین پہ رہتی ہیں آنکھوں میں میرے، کبھی آئینے میں خود کو دیکھتی ہے
میں روز منع بھی کرتا ہوں نا اتنا سجھ اور سنورا کرو تم خود کو نظر لگاو گی یہ کہنا تھا کہ، شرم کی سرخی چھا گئی اور اٹھ کے وہاں سے چلی گئ
The unfortunate drop that had been flung down from above the sky on to the abyss, sobbing for the undiscoverable and unachievable part of myself in her.